صـــــــــــۤا د قـــــــیــــن (بیسویں صدی کے پاکستانی مصور) Sadqeen Artist Painter

صـــــــــــۤا د قـــــــیــــن صادقین جنھیں‌ "قاف" نے خطاطی کا امام بنا دیا - ’’صادقین‘‘ آپ آئے تو چاروں طرف کِھل اُٹھے پھولوں کے نقش و نگار۔

بیسویں صدی کے پاکستانی مصور
*****************************

صـــــــــــۤا د قـــــــیــــن

Saqeen Artist
 
صادقین جنھیں‌ "قاف" نے خطاطی کا امام بنا دیا -
’’صادقین‘‘ آپ آئے تو چاروں طرف کِھل اُٹھے پھولوں کے نقش و نگار۔

میں ڈرائنگ روم کا نہیں،ڈسٹ بن کا فنکار ہوں۔(صادقین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید صادقین احمد نقوی ۔


(پیدائش: 30 جون 1923ء– وفات: 10 فروری 1987ء)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خوبصورت اور تخلیقی ذہن میں ہی عظیم تخیلات جنم لیتے ہیں!
صادقین بھی ایک خوبصورت، زرخیز اور تخلیقی ذہن کے مالک تھے۔
وہ نظر بھی کمال کی رکھتے تھے، انھوں نے حسن کائنات کو ’دیدۂ حیراں‘سے دیکھا اور انگلیاں کینوس پر خوبصورتی نقش کرتی گئیں۔
صادقین کو اسلامی خطاطی اور مصوری میں طرہ امتیاز حاصل تھا اور یہی خصوصیت ان کی وجہ شہرت بنی۔
صادقین کو پاکستان میں تو ایک عظیم مصور، خطاط اور نقاش کی حیثیت حاصل ہے، ساتھ ہی پاکستان سے باہر بھی ان کے پرستاروں اور ان کے فن کے قدردانوں کی کمی نہیں۔





بلکہ اگر کہا جائے کہ

ملک کے مقابلے میں دراصل بیرونِ ملک ان کے فن کو زیادہ پذیرائی اور اعلیٰ مقام دیا گیا تو غلط نہ ہوگا۔
فرانس میں صادقین کے چاہنے والے انھیں پکاسو کے درجہ کا تخلیق کار قرار دیتے ہیں اور وہاں انھیں ’پاکستانی پکاسو‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
یہاں یہ چیز محض کسی عام فرانسیسی کی طرف سے صادقین کے فن کی تعریف میں کہی گئی بات کی بنیاد پر نہیں کی جارہی بلکہ
فرانس کے ایک مایہ ناز روزنامہ Le Monde et La Vie نے اپنی خصوصی اشاعت میں صادقین کو پکاسو کے ہم پلہ قرار دیا تھا۔


ایک اور فرانسیسی اخبار Le Figaro نے 16اکتوبر 1962ء کے شمارے میں صادقین کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا،
’’صادقین کے کام میں وسعت، کثافت، حجم اور حقیقت کا تاثر ملتا ہے، جو خیالی سوچ میں بھی حقیقت کا رنگ بھر دیتا ہے‘‘۔
تاہم صادقین صرف فنِ مصوری تک ہی محدود نہیں تھے، ادب کے شعبے میں بھی انھوں نے گہرے نقوش چھوڑے۔


فیض احمد فیض کا ان کے بارے میں کہنا تھا،
’’جس وقت صادقین کا قلم چلتا ہے، اس سے صرف کائنات ہی نہیں بلکہ ماضی، حال اور مستقبل بھی گھوم جاتا ہے‘‘۔
بھارتی پروفیسر ڈاکٹر فرید پربتی نے صادقین کو اردو رباعی (شاعری کی ایک صنف) کا عظیم ترین شاعر قرار دیا۔


کراچی میں مقیم سلطان احمد صدیقی، صادقین کے بھتیجے ہیں۔ وہ صادقین اکیڈمی کے اُمور چلانے کے نگران بھی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ لوگ جس صادقین کو ایک نقاش، مصور اور خطاط کے طور پر جانتے ہیں، دراصل ان کے اندر چھپا فنکار پہلے شاعر کی شکل میں ظاہر ہوا۔

اے شوخ! ہے کب نفاق، مجھ میں تجھ میں
اک وصل ہے اک فراق، مجھ میں تجھ میں

اجسام میں اختلاف، میرے تیرے
ہے وہ ہی تو اتفاق، مجھ میں تجھ میں


سلطان احمد کے مطابق صادقین 16سال کی عمر میں باقاعدہ شاعر بن چکے تھے۔
ان کا پہلا مجموعہ کلام ’جزو بوسیدہ‘ کے نام سے موجود ہے، جس میں صادقین کے اوائلی دور کی شاعری موجود ہے۔

صادقین نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اصناف سخن کی سب سے مشکل صنف یعنی رباعی کا انتخاب کیا۔
ان کی لکھی گئی رباعیات کی تعداد ڈھائی ہزار سے 3 ہزار کے قریب ہے اور بہت کم شاعر ایسے ہیں جنہوں نے اتنی زیادہ تعداد میں رباعیات لکھی ہوں۔

صادقین، اپنی وفات سے قبل، کراچی کے تاریخی مقام فریئر ہال کی چھت کو اپنے فن پاروں سے سجا رہے تھے۔
ہرچند کہ وقت نے انھیں اس کام کو مکمل کرنے کی اجازت نہیں دی، تاہم 80 فٹ لمبائی اور 35 فٹ چوڑائی کے ساتھ، یہ دنیا میں کسی بھی چھت (Ceiling) پر کیا جانے والا مصوری کا سب سے بڑا کام ہے، اس میورل کو صادقین کی اَرض و سماوات (زمین و آسمان) کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
1987ء میں ان کے انتقال کے بعد اس مقام کو ان سے منسوب کر کے صادقین گیلری کا نام دے دیا گیا۔

فریئر ہال کے علاوہ صادقین نے لاہور میوزیم کی چھت کو بھی اپنے فن پاروں سے سجایا۔
اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان، نیشنل جیوگرافیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (حیدرآباد، بھارت)، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، منگلا ڈیم پاور ہاؤس اور پنجاب یونیورسٹی کی دیواروں پر بھی ان کے میورلز (قد آدم تصاویر) کندہ ہیں۔

’’صادقین‘‘ آپ آئے تو چاروں طرف کِھل اُٹھے پھولوں کے نقش و نگار!

’وقت کا خزانہ‘ (Treasure of Time) صادقین کی ایک اور عظیم الشان تخلیق ہے، جو میورل کی صورت میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان، کراچی لائبریری میں ثبت ہے۔ اس میورل میں انہوں نے تمام مفکرین بشمول یونانی فلسفیوں، عرب مفکرین اور یورپی سائنسدانوں کی تصویر کشی کے ذریعے ہر عہد کے فکری، علمی اور سائنسی ارتقاء کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

صادقین نے یہ میورل1961ء میں تخلیق کیا تھا۔


صرف یہی نہیں، صادقین نے غالب، فیض اور اقبال کی شاعری کو بھی اپنے فنِ مصوری کے ذریعے انتہائی خوبصورت اور دلکش انداز میں تحریر کیا۔ صادقین نے فرانسیسی مفکر و مصنف کامو کی تصنیف ’دی آؤٹ سائیڈر‘ کی تمثیل (Illustration) بھی پیش کی۔

1960ء میں صادقین کو ان کے فن کے اعتراف میں 30 برس کی عمر میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اس کے اگلے ہی سال انہیں فرانس کےااعلیٰ سول اعزاز ملا۔
1962ء میں انھیں تمغہ حسن کارکردگی (پرائڈ آف پرفارمنس) جبکہ1985ء میں ستارہ امتیاز دیا گیا۔ آسٹریلوی حکومت نے بھی انھیں ثقافتی ایوارڈ سے نوازا۔

صادقین کے فن پاروں کی کئی نمائشیں مشرق وسطیٰ، امریکا اور یورپ میں بھی منعقد کی گئیں، جہاں ان کے فن کو بے حد سراہا گیا۔یہ سلسلہ ان کے انتقال کے بعد بھی جاری رہا۔

اندازہ ہے کہ
مصوری، نقوش، خطاطی اور میورلز کی شکل میں صادقین کے فن پاروں کی تعداد 15ہزار سے زائد ہے، تاہم انھوں نےاپنے فن پاروں کو کبھی فروخت کیلئے پیش نہیں کیا، یہاں تک کہ،
انھیں کئی غیرملکی شاہی خاندانوں اور ملکی وغیر ملکی صاحبِ ثروت افراد کی طرف سے بھاری مالی پیشکشیں بھی کی گئیں، تاہم اپنے فن پاروں کا انھوں نے کبھی سودا نہیں کیا۔
اس کے بجائے اس عظیم انسان اور عظیم فنکار نے مختلف اداروں اور افراد کو اپنے فن پارے تحفتاً دینے میں ہمیشہ سخاوت کا مظاہرہ کیا۔
وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ
ان کے فن پارے برائے فروخت نہیں ہیں،وہ یہ کام صرف اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکرانہ ادا کرنے کیلئے کرتے ہیں۔

جناح ہسپتال کراچی اور کراچی ایئرپورٹ کیلئے بھی ابتدا میں صادقین نے ہی میورلز تخلیق کیے تھے، جو پُر اسرار طور پر غائب ہوچکے ہیں۔
پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ ابو ظہبی پاور ہاؤس اور پیرس کے مشہورِ زمانہ شانزے لیزے پر صادقین کے منقش فن پارے ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

اُن کی وجہ شہرت اسلامی خطاطی اور مصوری ہے۔
ان کے والد "سیّد سبطین احمد نقوی" کا گھرانہ خطاطی کے حوالے سے بہت پہلے سے مشہور تھا۔


1940ء کی دہائی میں وہ ادب کی ترقی پسند تحریک میں شامل ہوچکے تھے، ان کی شخصیت میں پوشیدہ فنکارانہ صلاحیتوں کو سب سے پہلے پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی نے شناخت کیا۔

آپ،ہندوستان کے ممتاز علمی شہر امروہہ (اترپردیش) میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم آبائی شہر امروہہ ہی میں حاصل کی، بعد ازاں آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔
تقسیم ہند کے بعد آپ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آ گئے۔
ان کے فن پاروں کی پہلی نمائش 1954ء میں کوئٹہ میں ہوئی تھی جس کے بعد فرانس، امریکا، مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی ایسی نمائشیں منعقد ہوئیں۔
مارچ 1970ء میں آپ کو تمغہ امتیاز اور 1985ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔
آپ کو سب سے پہلے کلام غالب کو تصویری قالب میں ڈھالنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
آپ کی خطاطی و مصوری کے نمونے فیصل مسجد اسلام آباد،
فریئر ہال کراچی،
نیشنل میوزیم کراچی،
صادقین آرٹ گیلری اور دنیا کے ممتاز عجائب گھروں میں موجود ہیں۔

ان کی دیوار گیر مصوری کے نمونوں (میورلز) کی تعداد کم وبیش 35 ہے جو آج بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان،
فریئر ہال کراچی،
لاہور میوزیم،
پنجاب یونیورسٹی،
منگلا ڈیم،
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،
بنارس ہندو یونیورسٹی،
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف جیولوجیکل سائینسز،
اسلامک انسٹی ٹیوٹ دہلی اور ابو ظہبی پاور ہاؤس کی دیواروں پر سجے شائقینِ فن کو مبہوت کر رہے ہیں،
صادقین نے جناح اسپتال اور پی آئی اے ہیڈ کوارٹرز کے لیے بھی ابتدا ہی میں میورلز تخلیق کیے تھے جو پُر اسرار طور پر غائب ہوچکے ہیں۔

صادقین نے قرآنِ کریم کی آیات کی جس مؤثر، دل نشیں اور قابلِ فہم انداز میں خطاطی کی وہ صرف انہی کا خاصہ ہے،
بالخصوص سورہ رحمن کی آیات کی خطاطی کو پاکستانی قوم اپنا سرمایۂ افتخار قرار دے سکتی ہے،
غالب اور فیض کے منتخب اشعار کی منفرد انداز میں خطاطی اور تشریحی مصوری ان ہی کا خاصہ ہے،
انہیں فرانس، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں کی حکومتوں کی جانب بھی سے اعزازات سے نوازا گیا۔


شاعری
"رقعات صادقین"
"رباعیات صادقین"
ان کی شاعری کی کتابیں ہیں۔

صادقین کی خطاطی اور مصوری اتنی منفرد اور اچھوتی تھی کہ
ان کے دور ہی میں ان کے شہ پاروں کی نقل ہونے لگی تھی اور بہت سے مصوروں نے جعلی پینٹنگز بنا کر اور ان پر صادقین کا نام لکھ کر خوب مال کمایا۔
جبکہ
خود صادقین نے شاہی خاندانوں اور غیر ملکی و ملکی صاحبِ ثروت افراد کی جانب سے بھاری مالی پیشکشوں کے باوجود اپنے فن پاروں کا بہت کم سودا کیا۔

زندگی کے آخری دنوں میں جب وہ فریئر ہال (کراچی) کی دیوار پر پینٹنگ میں مصروف تھے، اچانک گر پڑے اور
10 فروری 1987ء کو کراچی کے ایک اسپتال میں خالقِ حقیقی سے جا ملے،
سخی حسن کا قبرستان ان کی آخری آرام گاہ ہے۔

إرسال تعليق