المشاركات

ایٹمی دھماکوں پر ایک تاریخی نقطہ نظر

ایٹمی دھماکوں پر ایک تاریخی نقطہ نظر


ایٹمی دھماکوں کیلئے ضیاء دور میں چاغی کے پهاڑوں کے نیچے کوئی دو درجن سرنگیں 1982 میں هی تیار کر لی گئی تھیں ..یه سرنگیں پندره سے دو هزار میٹر گهری هیں اور انگریزی حرف "ایل "کی شکل کی هیں ..پاکستانی سائنسدان ایٹمی بم 1980 تک بنا چکے تھے اب صرف کسی مناسب موقعے کے منتظر تھے که اس کا تجربه کیا جائے. اور یه موقع همیں همارے روایتی حریف هندوستان نے بالآخر مئی 1998 کو دے هی دیا ..
ایٹمی دھماکوں پر ایک تاریخی نقطہ نظر

تجربے کا فیصله نواز حکومت نے عوامی دباؤ میں 18 مئی کو کیا ..چئر میں ایٹامک اینرجی کمیشن کے مطابق وزیراعظم نے بلا کر استفسار کیا که " کچھ پلے هے که نهیں "....
جس سے اندازه هوتا هے که وقت کے سیاسی حکمران بھی پاکستان کے اس صلاحیت سے نا آشنا تھے شائد اسٹیبلشمنٹ اس کو ضروری نهیں سمجھتا که یه آنے جانے والے مفاد پرست اس اهم اساسے بارے کچھ جان لیں

بحرحال اجازت ملتے هی ایٹامک اینرجی کمیشن کے زیرصدارت اجلاس هوا جس میں فیصله کیا گیا که یه موقع بھرپور طریقے سے کیش کیا جائے گا چنانچه پانچ دھماکے ایک ساتھ 28 مئی کو اور ایک بڑا دھماکه 29 مئی کو کرانے کا فیصله کیا گیا ..پوری ائیرفورس اور سول ایوی ایشن کو اس کام په لگایا گیا ..چاغی کے دالبندین کے پهاڑی سلسلے کو فوج نے مکمل طور په سیل کیا ..اور کسی قریبی ائرپورٹ کو لاجسٹکس کیلئے استعمال کیا گیا ...ایک بهت بڑے پیمانے پر انتهائی سخت سیکیورٹی میں سامان اور ایکوپمنٹ سائنسدان اور ٹیکنیشنز کو چاغی پهنچایا گیا

پهلے مرحلے میں سرنگوں صفائی کی گئی اور چھ سرنگیں منتخب کی گئیں ..شدید گرمی میں جب درجه حرارت 50 تک پهنچ جاتا تھا یه ساینسدان اور ٹیکنیشنز دن رات کام میں جتے رهے ...اس دوران باوجود کوشش کے رازداری برقرار رکھنی ناممکن تھی کیونکه پوری دنیا کے سیٹلائٹ چاغی پر مرکوز تھے اور بی بی سی اور سی این این سے ایک طرح سے لائو کورج هورهاتھا
ایٹمی بموں کو اسمبل کرکے C130 کے ذریعے چاغی لایا گیا .هر جهاز کے ساتھ ایرفورس کے F16 طیارے ایسکورٹ کر رهے تھے جن کی کمیونیکشن گراؤنڈ کے ساتھ منقطع کردی گئی تھی اور جنھیں یه حکمنامه تحریری اور زبانی دیا گیا تھا که اگر C130 کو اپنے روٹ سے هٹتے دیکھیں تو بغیر کسی اجازت کے اسے فضا میں هی اڑا دیا جائے
ایٹمی بم چاغی لاتے هی پهلے سے طے شده سرنگوں میں اتاره گیا ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے بقول تمام سینئر سائنسدان سرنگ میں اترے اور ڈیوائس کے پاس کھڑے هوکے کامیابی کی دعا کی اور پهر هر ایک نے اس پر اپنے دستحط ثبت کئے
 
 اس کے بعد غالبا" 26 مئی کو ان سرنگوں میں کنکریٹ پهرنے کا کام شروع هواپورا دن آرمی کے انجنئیر کور کے یونٹس ان سرنگوں کو کنکریٹ سے بھرتے رهے  کام مکمل هونے پر اسلام آباد کو مطلع کیا گیا

کهوٹه سے ڈاکٹر عبدالقدیر کو لایا گیا...چاغی کے پهاڑ سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پے ابزرویشن پوسٹ بنائی گئی اور دھماکے کی سائیٹ سے 25 کلومیٹر کے علاقے کو مکمل خالی کیا گیا ..تمام سائنسدان OP میں جمع هوئے اب یه فیصله کرنا تھا که بٹن کون دبائے ... پورے یونٹ میں سب سے جونئیر سائنسدان محمد ارشد کو بٹن دبانے کو کها گیا ... اسی پینتیس ساله سائنسدان نے اس تجربے کیلئے ٹریگر میکینزم ڈیزائین کیا تھا جس کے تین سٹیج تھے پهلا حصه Op میں تھا دوسرا کمپیوٹر سرنگ کے پاس پڑا تھا اور تیسرا حصه جو که دھماکه خیز مواد پر مشتمل تھا بم کے ساتھ لگا هوا تھا
تین تکبیریں کهیں گئیں اور تیسری تکبیر پر محمد ارشد نے بٹن دبا دیا تیس سیکنڈ تک کچھ نه هوا
ثمر مبارک مند کے مطابق یه تیس سیکنڈ هماری زندگی کے طویل تریں اور انتهائی عصاب شکن تیس سیکنڈ تھے ..پورے OP میں سناٹا تھا یهاں تک که دل کی دھڑکنیں بھی سنائی دے رهی تھیں ...یکایک پهاڑ نے رنگ بدلنا شروع کردیا اور زمیں همار پیروں تلے لرزنے لگی ....OP میں جیسے جان آگئی هو سب نے تکبیر بلند کی اور سجده شکر ادا کیا ... درجه حرارت بے تحاشه بڑھ گیا ...پاک فضائیه کے کوئی دو درجن جهاز همارے اوپر سے گزرے ...
میرا اپنے بچپن کے دوست کے ساتھ شرط لگی تھی کہ دھماکے تو ہونے ہی والے ہیں لیکن ہم دونوں میں سے جو پہلے یہ نیوز سنے گا وہ دوسرے کو فون کرے گا.
اس وقت ایس ٹی این پر تین سے چار بجے تک بی بی سی دکھایا جاتا تھا ..تین بج کر پچیس پر اپنے نارمل پروگرام منقطع کرکے بی بی سی نیوز اینکر نے یه خبر بریک کی کہ جنوبی پاکستان میں زلزله ریکارڈ کیا گیا هےجو که قدرتی نهیں کسی نیوکلئیر
ایکٹویٹی کا نتیجه هے ....یه خبر اینکر نے جس معنی خیز مسکراهٹ سے بریک کی وه مجھے آج بھی یاد هے ...اس کے بعد حکومت نے نشریات مکمل طور پر بند کردیں ....اور میں نے فوراً سعد عبداللہ کو کال کی کہ ٹیسٹ کردئے گئے ہیں...
اللہ سے دعا ہے یہ ایٹم بم امت مسلمہ کو پستی سے نکلنے میں ہمارے کام آئیں
امین

إرسال تعليق